کسے خبر کہ ہے کیا کیا یہ جان تھامے ہوئے
زمین تھامے ہوئے آسمان تھامے ہوئے
فضائیں کچھ بھی نہیں ہیں فقط نظر کا فریب
کھڑا ہوا ہے کوئی آسمان تھامے ہوئے
سفینہ موجۂ سیل بلا سے گرم ستیز
ہوا کا بار گراں بادبان تھامے ہوئے
گرا ہے کوئی جری اے فصیل شہر تباہ
مزاحمت کا دریدہ نشان تھامے ہوئے
سڑک کے پار چلا جا رہا ہے بچتا ہوا
کسی کا ہاتھ کوئی مہربان تھامے ہوئے
عجب طلسم سا منظر ہے بھیگتی ہوئی شام
کوئی پری ہے دھنک کی کمان تھامے ہوئے
غزل
کسے خبر کہ ہے کیا کیا یہ جان تھامے ہوئے
احمد عظیم