ایسی بھی کہاں بے سر و سامانی ہوئی ہے
جو سب کو مجھے دیکھ کے حیرانی ہوئی ہے
دل میں تو تری یاد تھی اک بوند لہو کی
آنکھوں میں جو آئی تو یہی پانی ہوئی ہے
قلزم کا ہے اعزاز کہ تہہ داری کی ہر موج
اس زلف گرہ گیر کی دیوانی ہوئی ہے
کیا ڈھونڈنے نکلی ہے کسی قیس کو پاگل
اس درجہ جو یہ باد بیابانی ہوئی ہے
آسیب زدہ ہیں در و دیوار شب و روز
کس درجہ مہ و سال کی ویرانی ہوئی ہے
بوئے ہیں بہت چشم تمنا میں یہاں خواب
تب جا کے زمیں دل کی یہ بارانی ہوئی ہے
غزل
ایسی بھی کہاں بے سر و سامانی ہوئی ہے
احمد عظیم