اسی لیے تو ہار کا ہوا نہیں ملال تک
وہ میرے ساتھ ساتھ تھا عروج سے زوال تک
نہیں ہے سہل اس قدر کہ جی سکے ہر ایک شخص
بلائے ہجر کی رتوں سے موسم وصال تک
ہماری کشت آرزو یہ دھوپ کیا جلائے گی
تمہارا انتظار ہم کریں گے برشگال تک
عمیق زخم اس قدر بہ دست و روز و شب ملے
کہ مندمل نہ کر سکی دوائے ماہ و سال تک
قبائے زرد و سرخ کا یہ امتزاج الاماں
جمال کو وہ لے گیا پرے حد کمال تک

غزل
اسی لیے تو ہار کا ہوا نہیں ملال تک
احمد عظیم