فتنہ اٹھا تو رزم گہہ خاک سے اٹھا
سورج کسی کے پیرہن چاک سے اٹھا
یہ دل اٹھا رہا ہے بڑے حوصلے کے ساتھ
وہ بار جو زمیں سے نہ افلاک سے اٹھا
سب معجزوں کے باب میں یہ معجزہ بھی ہو
جو لوگ مر گئے ہیں انہیں خاک سے اٹھا
سورج کی ضو چراغ شکستہ کی لو سے ہو
قلزم کی موج دیدۂ نمناک سے اٹھا
پوچھا جو اس نے عہد جراحت کا ماجرا
دریا لہو کا ہر رگ پوشاک سے اٹھا
غزل
فتنہ اٹھا تو رزم گہہ خاک سے اٹھا
احمد عظیم