ایسے کچھ دن بھی تھے جو ہم سے گزارے نہ گئے
واپسی کے کسی سامان میں رکھ چھوڑے ہیں
افضال نوید
ایام کے غبار سے نکلا تو دیر تک
میں راستوں کو دھول بنا دیکھتا رہا
افضال نوید
دروازے تھے کچھ اور بھی دروازے کے پیچھے
برسوں پہ گئی بات مہینوں سے نکل کر
افضال نوید
جنگ سے جنگل بنا جنگل سے میں نکلا نہیں
ہو گیا اوجھل مگر اوجھل سے میں نکلا نہیں
افضال نوید
خالی ہوا گلاس نشہ سر میں آ گیا
دریا اتر گیا تو سمندر میں آ گیا
افضال نوید
کہ جیسے خود سے ملاقات ہو نہیں پاتی
جہاں سے اٹھا ہوا ہے خمیر کھینچتا ہوں
افضال نوید
میں نے بچپن کی خوشبوئے نازک
ایک تتلی کے سنگ اڑائی تھی
افضال نوید
رہتی ہے شب و روز میں بارش سی تری یاد
خوابوں میں اتر جاتی ہیں گھنگھور سی آنکھیں
افضال نوید
رکھ لیے روزن زنداں پہ پرندے سارے
جو نہ واں رکھنے تھے دیوان میں رکھ چھوڑے ہیں
افضال نوید