ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے
ابو المجاہد زاہد
گلشن میں نہ ہم ہوں گے تو پھر سوگ ہمارا
گل پیرہن و غنچہ دہن کرتے رہیں گے
ابو المجاہد زاہد
جو سوتے ہیں نہیں کچھ ذکر ان کا وہ تو سوتے ہیں
مگر جو جاگتے ہیں ان میں بھی بیدار کتنے ہیں
ابو المجاہد زاہد
لوگ چن لیں جس کی تحریریں حوالوں کے لیے
زندگی کی وہ کتاب معتبر ہو جائیے
ابو المجاہد زاہد
ملا نہ گھر سے نکل کر بھی چین اے زاہدؔ
کھلی فضا میں وہی زہر تھا جو گھر میں تھا
ابو المجاہد زاہد
نئی سحر کے حسین سورج تجھے غریبوں سے واسطہ کیا
جہاں اجالا ہے سیم و زر کا وہیں تری روشنی ملے گی
ابو المجاہد زاہد
تمام عمر خوشی کی تلاش میں گزری
تمام عمر ترستے رہے خوشی کے لیے
ابو المجاہد زاہد
تم چلو اس کے ساتھ یا نہ چلو
پاؤں رکتے نہیں زمانے کے
ابو المجاہد زاہد
یہ نہیں کہ تو نے بھیجا ہی نہیں پیام کوئی
مگر اک وہی نہ آیا جو پیام چاہتے ہیں
ابو المجاہد زاہد