گلہ کس سے کریں اغیار دل آزار کتنے ہیں
ہمیں معلوم ہے احباب بھی غم خوار کتنے ہیں
سکت باقی نہیں ہے قم باذن للہ کہنے کی
مسیحا بھی ہمارے دور کے بیمار کتنے ہیں
یہ سوچو کیسی راہوں سے گزر کر میں یہاں پہنچا
یہ مت دیکھو مرے دامن میں الجھے خار کتنے ہیں
جو سوتے ہیں نہیں کچھ ذکر ان کا وہ تو سوتے ہیں
مگر جو جاگتے ہیں ان میں بھی بیدار کتنے ہیں
بہت ہیں مدعی سچ کی طرف داری کے اے زاہدؔ
مگر جو جھوٹ سے ہیں بر سر پیکار کتنے ہیں
غزل
گلہ کس سے کریں اغیار دل آزار کتنے ہیں
ابو المجاہد زاہد