ہر اہتمام ہے دو دن کی زندگی کے لیے
سکون قلب نہیں پھر بھی آدمی کے لیے
تمام عمر خوشی کی تلاش میں گزری
تمام عمر ترستے رہے خوشی کے لیے
نہ کھا فریب وفا کا یہ بے وفا دنیا
کبھی کسی کے لیے ہے کبھی کسی کے لیے
یہ دور شمس و قمر یہ فروغ علم و ہنر
زمین پھر بھی ترستی ہے روشنی کے لیے
کبھی اٹھے تھے جو خورشید زندگی بن کر
ترس رہے ہیں وہ تاروں کی روشنی کے لیے
ستم طرازی دور خرد خدا کی پناہ
کہ آدمی ہی مصیبت ہے آدمی کے لیے
رہ حیات کی تاریکیوں میں اے زاہدؔ
چراغ دل ہے مرے پاس روشنی کے لیے
غزل
ہر اہتمام ہے دو دن کی زندگی کے لیے
ابو المجاہد زاہد