EN हिंदी
ہر اہتمام ہے دو دن کی زندگی کے لیے | شیح شیری
har ehtimam hai do din ki zindagi ke liye

غزل

ہر اہتمام ہے دو دن کی زندگی کے لیے

ابو المجاہد زاہد

;

ہر اہتمام ہے دو دن کی زندگی کے لیے
سکون قلب نہیں پھر بھی آدمی کے لیے

تمام عمر خوشی کی تلاش میں گزری
تمام عمر ترستے رہے خوشی کے لیے

نہ کھا فریب وفا کا یہ بے وفا دنیا
کبھی کسی کے لیے ہے کبھی کسی کے لیے

یہ دور شمس و قمر یہ فروغ علم و ہنر
زمین پھر بھی ترستی ہے روشنی کے لیے

کبھی اٹھے تھے جو خورشید زندگی بن کر
ترس رہے ہیں وہ تاروں کی روشنی کے لیے

ستم طرازی دور خرد خدا کی پناہ
کہ آدمی ہی مصیبت ہے آدمی کے لیے

رہ حیات کی تاریکیوں میں اے زاہدؔ
چراغ دل ہے مرے پاس روشنی کے لیے