نئی صبح چاہتے ہیں نئی شام چاہتے ہیں
جو یہ روز و شب بدل دے وہ نظام چاہتے ہیں
وہی شاہ چاہتے ہیں جو غلام چاہتے ہیں
کوئی چاہتا ہی کب ہے جو عوام چاہتے ہیں
اسی بات پر ہیں برہم یہ ستم گران عالم
کہ جو چھن گیا ہے ہم سے وہ مقام چاہتے ہیں
کسے حرف حق سناؤں کہ یہاں تو اس کو سننا
نہ خواص چاہتے ہیں نہ عوام چاہتے ہیں
یہ نہیں کہ تو نے بھیجا ہی نہیں پیام کوئی
مگر اک وہی نہ آیا جو پیام چاہتے ہیں
تری راہ دیکھتی ہیں مری تشنہ کام آنکھیں
ترے جلوے میرے گھر کے در و بام چاہتے ہیں
وہ کتاب زندگی ہی نہ ہوئی مرتب اب تک
کہ ہم انتساب جس کا ترے نام چاہتے ہیں
نہ مراد ہوگی پوری کبھی ان شکاریوں کی
مجھے دیکھنا جو زاہدؔ تہ دام چاہتے ہیں
غزل
نئی صبح چاہتے ہیں نئی شام چاہتے ہیں
ابو المجاہد زاہد