گیا تو حسن نہ دیوار میں نہ در میں تھا
وہ ایک شخص جو مہمان میرے گھر میں تھا
نجات دھوپ سے ملتی تو کس طرح ملتی
مرا سفر تو میاں دشت بے شجر میں تھا
غم زمانہ کی ناگن نے ڈس لیا سب کو
وہی بچا جو تری زلف کے اثر میں تھا
کھلی جو آنکھ تو افسون خواب ٹوٹ گیا
ابھی ابھی کوئی چہرہ مری نظر میں تھا
نہ آئی گھر میں کبھی اک کرن بھی سورج کی
اگرچہ میرا مکاں وادیٔ سحر میں تھا
ملا نہ گھر سے نکل کر بھی چین اے زاہدؔ
کھلی فضا میں وہی زہر تھا جو گھر میں تھا
غزل
گیا تو حسن نہ دیوار میں نہ در میں تھا
ابو المجاہد زاہد