تجدید روایات کہن کرتے رہیں گے
سر معرکۂ دار و رسن کرتے رہیں گے
وہ دور خزاں ہو کہ بہاروں کا زمانہ
ہم یاد تجھے جان چمن کرتے رہیں گے
رنگین ترے ذکر سے ہم شعر و سخن کو
اے جان سخن مرکز فن کرتے رہیں گے
اس آبلہ پائی پہ بھی ہم تیری طلب میں
طے جادۂ آلام و محن کرتے رہیں گے
دنیا ہمیں دیوانہ سمجھتی ہے تو سمجھے
ہم عام غم دل کا چلن کرتے رہیں گے
جلتے ہیں جسے سن کے اندھیرے کے پرستار
ہم عام وہی طرز سخن کرتے رہیں گے
گلشن میں نہ ہم ہوں گے تو پھر سوگ ہمارا
گل پیرہن و غنچہ دہن کرتے رہیں گے
زاہدؔ بہ تقاضائے وفا طرح یقین پر
ہم کوشش تعمیر وطن کرتے رہیں گے
غزل
تجدید روایات کہن کرتے رہیں گے
ابو المجاہد زاہد