EN हिंदी
ابو محمد سحر شیاری | شیح شیری

ابو محمد سحر شیر

14 شیر

بلائے جاں تھی جو بزم تماشا چھوڑ دی میں نے
خوشا اے زندگی خوابوں کی دنیا چھوڑ دی میں نے

ابو محمد سحر




برق سے کھیلنے طوفان پہ ہنسنے والے
ایسے ڈوبے ترے غم میں کہ ابھر بھی نہ سکے

ابو محمد سحر




بے ربطئ حیات کا منظر بھی دیکھ لے
تھوڑا سا اپنی ذات کے باہر بھی دیکھ لے

ابو محمد سحر




غم حبیب نہیں کچھ غم جہاں سے الگ
یہ اہل درد نے کیا مسئلے اٹھائے ہیں

ابو محمد سحر




ہمیں تنہائیوں میں یوں تو کیا کیا یاد آتا ہے
مگر سچ پوچھیے تو ایک چہرا یاد آتا ہے

ابو محمد سحر




ہندو سے پوچھیے نہ مسلماں سے پوچھیے
انسانیت کا غم کسی انساں سے پوچھیے

ابو محمد سحر




ہوشمندی سے جہاں بات نہ بنتی ہو سحرؔ
کام ایسے میں بہت بے خبری آتی ہے

ابو محمد سحر




عشق کے مضموں تھے جن میں وہ رسالے کیا ہوئے
اے کتاب زندگی تیرے حوالے کیا ہوئے

ابو محمد سحر




عشق کو حسن کے اطوار سے کیا نسبت ہے
وہ ہمیں بھول گئے ہم تو انہیں یاد کریں

ابو محمد سحر