امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا
چراغ حسن حسرت
غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
داغؔ دہلوی
جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا
تمہیں منصفی سے کہہ دو تمہیں اعتبار ہوتا
داغؔ دہلوی
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا
for reasons of formality, I've chosen to believe
you have surely lost your faith when you so deceive
داغؔ دہلوی
میں بھی حیران ہوں اے داغؔ کہ یہ بات ہے کیا
وعدہ وہ کرتے ہیں آتا ہے تبسم مجھ کو
داغؔ دہلوی
وعدہ جھوٹا کر لیا چلئے تسلی ہو گئی
ہے ذرا سی بات خوش کرنا دل ناشاد کا
داغؔ دہلوی
وفا کریں گے نباہیں گے بات مانیں گے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا
داغؔ دہلوی