EN हिंदी
تاثور شیاری | شیح شیری

تاثور

33 شیر

جو تصور سے ماورا نہ ہوا
وہ تو بندہ ہوا خدا نہ ہوا

اقبال سہیل




میں جب بھی اس کے خیالوں میں کھو سا جاتا ہوں
وہ خود بھی بات کرے تو برا لگے ہے مجھے

جاں نثاراختر




تیرے خیال کے دیوار و در بناتے ہیں
ہم اپنے گھر میں بھی تیرا ہی گھر بناتے ہیں

جمیل الدین عالی




لب خیال سے اس لب کا جو لیا بوسہ
تو منہ ہی منہ میں عجب طرح کا مزا آیا

جرأت قلندر بخش




میں کہ تیرے دھیان میں گم تھا
دنیا مجھ کو ڈھونڈھ رہی تھی

کرامت بخاری




جانے کیوں اک خیال سا آیا
میں نہ ہوں گا تو کیا کمی ہوگی

خلیلؔ الرحمن اعظمی




میں نے تو تصور میں اور عکس دیکھا تھا
فکر مختلف کیوں ہے شاعری کے پیکر میں

خوشبیر سنگھ شادؔ