EN हिंदी
تیرے خیال کے دیوار و در بناتے ہیں | شیح شیری
tere KHayal ke diwar-o-dar banate hain

غزل

تیرے خیال کے دیوار و در بناتے ہیں

جمیل الدین عالی

;

تیرے خیال کے دیوار و در بناتے ہیں
ہم اپنے گھر میں بھی تیرا ہی گھر بناتے ہیں

بجائے یوم ملامت رکھا ہے جشن مرا
مرے بھی دوست مجھے کس قدر بناتے ہیں

بکھیرتے رہو صحرا میں بیج الفت کے
کہ بیج ہی تو ابھر کر شجر بناتے ہیں

بس اب حکایت مزدوریٔ وفا نہ بنا
وہ گھر انہیں نہیں ملتے جو گھر بناتے ہیں

ترا بھی نام چھپا وجہ مرگ عاشق میں
یہ دیکھ بے خبرے یوں خبر بناتے ہیں

وہ کیا خدا کی پرستش کریں گے میری طرح
جو ایک بت بھی بہت سوچ کر بناتے ہیں

کہا یہ کس نے کہ ہے قصر عشق رہن شباب
بنانے والے اسے عمر بھر بناتے ہیں

تو آئے تو تری کاری گری کی لاج رہے
ہم آج دشت میں رہ کر بھی گھر بناتے ہیں

ملی نہ فرصت آرائش بیاباں بھی
کہ ہم یہاں بھی ترے بام و در بناتے ہیں

عدو ہواؤ کراچی کے لوگ ہارے نہیں
جو گھر گراؤ وہ بار دگر بناتے ہیں

ابو ظبی میں ہمیشہ نئی غزل عالؔی
یہ لوگ ہی تو تجھے معتبر بناتے ہیں