EN हिंदी
تاثور شیاری | شیح شیری

تاثور

33 شیر

کھل نہیں سکتی ہیں اب آنکھیں میری
جی میں یہ کس کا تصور آ گیا

خواجہ میر دردؔ




کھل نہیں سکتی ہیں اب آنکھیں مری
جی میں یہ کس کا تصور آ گیا

خواجہ میر دردؔ




پوری ہوتی ہیں تصور میں امیدیں کیا کیا
دل میں سب کچھ ہے مگر پیش نظر کچھ بھی نہیں

لالہ مادھو رام جوہر




تصور زلف کا ہے اور میں ہوں
بلا کا سامنا ہے اور میں ہوں

لالہ مادھو رام جوہر




ان کا غم ان کا تصور ان کی یاد
کٹ رہی ہے زندگی آرام سے

محشر عنایتی




ہیں تصور میں اس کے آنکھیں بند
لوگ جانیں ہیں خواب کرتا ہوں

میر محمدی بیدار




بچھڑ کر اس سے سیکھا ہے تصور کو بدن کرنا
اکیلے میں اسے چھونا اکیلے میں سخن کرنا

نشتر خانقاہی