اس میں کیا شک ہے کہ آوارہ ہوں میں
کوچے کوچے میں پھرا کرتا ہوں میں
مجھ سے سرزد ہوتے رہتے ہیں گناہ
آدمی ہوں کیوں کہوں اچھا ہوں میں
صاف و شفاف آسماں کو دیکھ کر
گندی گندی گالیاں بکتا ہوں میں
قہوہ خانوں میں بسر کرتا ہوں دن
قحبہ خانوں میں سحر کرتا ہوں میں
دن گزرتا ہے مرا احباب میں
رات کو فٹ پاتھ پر سوتا ہوں میں
بیٹ کر جاتی ہے چڑیا ٹانٹ پر
عظمت آدم کا آئینہ ہوں میں
کانچ سی گڑیوں کے نرم اعصاب پر
صورت سنگ ہوس پڑتا ہوں میں
نازکوں کے ناز اٹھانے کے بجائے
نازکوں سے ناز اٹھواتا ہوں میں
دوسروں کو کیا پتا اپنا بتاؤں
اب تو خود اپنے لیے عنقا ہوں میں
مجھ سے پوچھے حرمت کعبہ کوئی
مسجدوں میں چوریاں کرتا ہوں میں
مجھ سے لکھوائے کوئی ہجو شراب
مے کدوں میں قرض کی پیتا ہوں میں
میں چھپاتا ہوں برہنہ خواہشیں
وہ سمجھتی ہے کہ شرمیلا ہوں میں
کس قدر بد نامیاں ہیں میرے ساتھ
کیا بتاؤں کس قدر تنہا ہوں میں
خواب آور گولیوں سے اے شعورؔ
خود کشی کی کوششیں کرتا ہوں میں
غزل
اس میں کیا شک ہے کہ آوارہ ہوں میں
انور شعور