EN हिंदी
کوئی تہمت ہو مرے نام چلی آتی ہے | شیح شیری
koi tohmat ho mere nam chali aati hai

غزل

کوئی تہمت ہو مرے نام چلی آتی ہے

انجم خیالی

;

کوئی تہمت ہو مرے نام چلی آتی ہے
جیسے بازار میں ہر گھر سے گلی آتی ہے

تری یاد آتی ہے اب کوئی کہانی بن کر
یا کسی نظم کے سانچے میں ڈھلی آتی ہے

اب بھی پہلے کی طرح پیش رو رنگ و صدا
ایک منہ بند سی بے رنگ کلی آتی ہے

چل کے دیکھیں تو سہی کون ہے یہ دختر رز
روز اول سے جو بد نام چلی آتی ہے

یہ مرے کرب کا عالم رہے یا رب آباد
اس زمیں سے بوئے اولاد علیؔ آتی ہے