EN हिंदी
نگاہ شیاری | شیح شیری

نگاہ

51 شیر

جس طرف اٹھ گئی ہیں آہیں ہیں
چشم بد دور کیا نگاہیں ہیں

اکبر الہ آبادی




محبت کا تم سے اثر کیا کہوں
نظر مل گئی دل دھڑکنے لگا

اکبر الہ آبادی




لوگ نظروں کو بھی پڑھ لیتے ہیں
اپنی آنکھوں کو جھکائے رکھنا

اختر ہوشیارپوری




نہ مزاج ناز جلوہ کبھی پا سکیں نگاہیں
کہ الجھ کے رہ گئی ہیں تری زلف خم بہ خم میں

اختر اورینوی




ان رس بھری آنکھوں میں حیا کھیل رہی ہے
دو زہر کے پیالوں میں قضا کھیل رہی ہے

اختر شیرانی




فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے

علامہ اقبال




سیدھی نگاہ میں تری ہیں تیر کے خواص
ترچھی ذرا ہوئی تو ہیں شمشیر کے خواص

امیر مینائی