EN हिंदी
نگاہ شیاری | شیح شیری

نگاہ

51 شیر

ہائے وہ راز غم کہ جو اب تک
تیرے دل میں مری نگاہ میں ہے

جگر مراد آبادی




جھکتی ہے نگاہ اس کی مجھ سے مل کر
دیوار سے دھوپ اتر رہی ہے گویا

جوشؔ ملسیانی




خدا بچائے تری مست مست آنکھوں سے
فرشتہ ہو تو بہک جائے آدمی کیا ہے

خمارؔ بارہ بنکوی




ساقی مرے بھی دل کی طرف ٹک نگاہ کر
لب تشنہ تیری بزم میں یہ جام رہ گیا

خواجہ میر دردؔ




دیکھا حضور کو جو مکدر تو مر گئے
ہم مٹ گئے جو آپ نے میلی نگاہ کی

لالہ مادھو رام جوہر




تڑپ رہا ہے دل اک ناوک جفا کے لیے
اسی نگاہ سے پھر دیکھیے خدا کے لیے

لالہ مادھو رام جوہر




حال کہہ دیتے ہیں نازک سے اشارے اکثر
کتنی خاموش نگاہوں کی زباں ہوتی ہے

مہیش چندر نقش