ہے دیکھنے والوں کو سنبھلنے کا اشارہ
تھوڑی سی نقاب آج وہ سرکائے ہوئے ہیں
عرش ملسیانی
ہے دیکھنے والوں کو سنبھلنے کا اشارا
تھوڑی سی نقاب آج وہ سرکائے ہوئے ہیں
عرش ملسیانی
خول چہروں پہ چڑھانے نہیں آتے ہم کو
گاؤں کے لوگ ہیں ہم شہر میں کم آتے ہیں
بیدل حیدری
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
what coyness this is, to abide,a screen beside her face
which neither does she clearly hide nor openly display
داغؔ دہلوی
جو پردوں میں خود کو چھپائے ہوئے ہیں
قیامت وہی تو اٹھائے ہوئے ہیں
حفیظ بنارسی
تصور میں بھی اب وہ بے نقاب آتے نہیں مجھ تک
قیامت آ چکی ہے لوگ کہتے ہیں شباب آیا
حفیظ جالندھری
اسی امید پر تو جی رہے ہیں ہجر کے مارے
کبھی تو رخ سے اٹھے گی نقاب آہستہ آہستہ
ہاشم علی خاں دلازاک