EN हिंदी
نقاب شیاری | شیح شیری

نقاب

22 شیر

اتنے حجابوں پر تو یہ عالم ہے حسن کا
کیا حال ہو جو دیکھ لیں پردہ اٹھا کے ہم

جگر مراد آبادی




نقاب رخ اٹھایا جا رہا ہے
وہ نکلی دھوپ سایہ جا رہا ہے

from the confines of the veil your face is now being freed
lo sunshine now emerges, the shadows now recede

ماہر القادری




نقاب اٹھاؤ تو ہر شے کو پاؤ گے سالم
یہ کائنات بطور حجاب ٹوٹتی ہے

مشکور حسین یاد




اس دور میں انسان کا چہرہ نہیں ملتا
کب سے میں نقابوں کی تہیں کھول رہا ہوں

مغیث الدین فریدی




تیرے قربان قمرؔ منہ سر گلزار نہ کھول
صدقے اس چاند سی صورت پہ نہ ہو جائے بہار

قمر جلالوی




چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے

ساغر صدیقی




ہزار چہرے ہیں موجود آدمی غائب
یہ کس خرابے میں دنیا نے لا کے چھوڑ دیا

شہزاد احمد