جو پردوں میں خود کو چھپائے ہوئے ہیں
قیامت وہی تو اٹھائے ہوئے ہیں
تری انجمن میں جو آئے ہوئے ہیں
غم دو جہاں کو بھلائے ہوئے ہیں
پہاڑوں سے بھی جو اٹھائے نہ اٹھا
وہ بار وفا ہم اٹھائے ہوئے ہیں
کوئی شام کے وقت آئے گا لیکن
سحر سے ہم آنکھیں بچھائے ہوئے ہیں
جہاں بجلیاں خود اماں ڈھونڈتی ہیں
وہاں ہم نشیمن بنائے ہوئے ہیں
غزل آبرو ہے تو اردو زباں کی
تری آبرو ہم بچائے ہوئے ہیں
یہ اشعار یوں ہی نہیں درد آگیں
حفیظؔ آپ بھی چوٹ کھائے ہوئے ہیں
غزل
جو پردوں میں خود کو چھپائے ہوئے ہیں
حفیظ بنارسی