اب جو اک حسرت جوانی ہے
عمر رفتہ کی یہ نشانی ہے
میر تقی میر
ادا آئی جفا آئی غرور آیا حجاب آیا
ہزاروں آفتیں لے کر حسینوں پر شباب آیا
نوح ناروی
بچ جائے جوانی میں جو دنیا کی ہوا سے
ہوتا ہے فرشتہ کوئی انساں نہیں ہوتا
ریاضؔ خیرآبادی
ہائے سیمابؔ اس کی مجبوری
جس نے کی ہو شباب میں توبہ
سیماب اکبرآبادی
جوانی سے زیادہ وقت پیری جوش ہوتا ہے
بھڑکتا ہے چراغ صبح جب خاموش ہوتا ہے
passion runneth stronger in dotage than in youth
the flame flickers burning brighter ere it dies forsooth
شاد لکھنوی
وقت پیری شباب کی باتیں
ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں
in old age talk of youth now seems
to be just like the stuff of dreams
شیخ ابراہیم ذوقؔ
اے ہم نفس نہ پوچھ جوانی کا ماجرا
موج نسیم تھی ادھر آئی ادھر گئی
تلوک چند محروم