اس کا گلہ نہیں کہ دعا بے اثر گئی
اک آہ کی تھی وہ بھی کہیں جا کے مر گئی
اے ہم نفس نہ پوچھ جوانی کا ماجرا
موج نسیم تھی ادھر آئی ادھر گئی
دام غم حیات میں الجھا گئی امید
ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ احسان کر گئی
اس زندگی سے ہم کو نہ دنیا ملی نہ دیں
تقدیر کا مشاہدہ کرتے گزر گئی
انجام فصل گل پہ نظر تھی وگرنہ کیوں
گلشن سے آہ بھر کے نسیم سحر گئی
بس اتنا ہوش تھا مجھے روز وداع دوست
ویرانہ تھا نظر میں جہاں تک نظر گئی
ہر موج آب سندھ ہوئی وقفہ پیچ و تاب
محرومؔ جب وطن میں ہماری خبر گئی
غزل
اس کا گلہ نہیں کہ دعا بے اثر گئی
تلوک چند محروم