EN हिंदी
جوانی شیاری | شیح شیری

جوانی

50 شیر

ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک

فانی بدایونی




رات بھی نیند بھی کہانی بھی
ہائے کیا چیز ہے جوانی بھی

فراق گورکھپوری




ناصحا عاشقی میں رکھ معذور
کیا کروں عالم جوانی ہے

گویا فقیر محمد




خاموش ہو گئیں جو امنگیں شباب کی
پھر جرأت گناہ نہ کی ہم بھی چپ رہے

حفیظ جالندھری




تصور میں بھی اب وہ بے نقاب آتے نہیں مجھ تک
قیامت آ چکی ہے لوگ کہتے ہیں شباب آیا

حفیظ جالندھری




جب ملا کوئی حسیں جان پر آفت آئی
سو جگہ عہد جوانی میں طبیعت آئی

حفیظ جونپوری




عجیب حال تھا عہد شباب میں دل کا
مجھے گناہ بھی کار ثواب لگتا تھا

strange was the condition of my heart in youth
when even sinful deeds seemed piety forsooth

ہیرا نند سوزؔ