EN हिंदी
جوانی شیاری | شیح شیری

جوانی

50 شیر

کیوں جوانی کی مجھے یاد آئی
میں نے اک خواب سا دیکھا کیا تھا

اسرار الحق مجاز




قیامت ہے تری اٹھتی جوانی
غضب ڈھانے لگیں نیچی نگاہیں

بیخود دہلوی




وہ کچھ مسکرانا وہ کچھ جھینپ جانا
جوانی ادائیں سکھاتی ہیں کیا کیا

بیخود دہلوی




مزا ہے عہد جوانی میں سر پٹکنے کا
لہو میں پھر یہ روانی رہے رہے نہ رہے

چکبست برج نرائن




اک ادا مستانہ سر سے پاؤں تک چھائی ہوئی
اف تری کافر جوانی جوش پر آئی ہوئی

داغؔ دہلوی




جوانی کو بچا سکتے تو ہیں ہر داغ سے واعظ
مگر ایسی جوانی کو جوانی کون کہتا ہے

فانی بدایونی




مجھ تک اس محفل میں پھر جام شراب آنے کو ہے
عمر رفتہ پلٹی آتی ہے شباب آنے کو ہے

فانی بدایونی