EN हिंदी
کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی | شیح شیری
kab Thahrega dard ai dil kab raat basar hogi

غزل

کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی

فیض احمد فیض

;

کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی
سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی

کب جان لہو ہوگی کب اشک گہر ہوگا
کس دن تری شنوائی اے دیدۂ تر ہوگی

کب مہکے گی فصل گل کب بہکے گا مے خانہ
کب صبح سخن ہوگی کب شام نظر ہوگی

واعظ ہے نہ زاہد ہے ناصح ہے نہ قاتل ہے
اب شہر میں یاروں کی کس طرح بسر ہوگی

کب تک ابھی رہ دیکھیں اے قامت جانانہ
کب حشر معین ہے تجھ کو تو خبر ہوگی