EN हिंदी
دوشنانی شیاری | شیح شیری

دوشنانی

21 شیر

میں محبت نہ چھپاؤں تو عداوت نہ چھپا
نہ یہی راز میں اب ہے نہ وہی راز میں ہے

کلیم عاجز




تعلق ہے نہ اب ترک تعلق
خدا جانے یہ کیسی دشمنی ہے

کاملؔ بہزادی




دشمنی نے سنا نہ ہووے گا
جو ہمیں دوستی نے دکھلایا

خواجہ میر دردؔ




آ گیا جوہرؔ عجب الٹا زمانہ کیا کہیں
دوست وہ کرتے ہیں باتیں جو عدو کرتے نہیں

لالہ مادھو رام جوہر




اے دوست تجھ کو رحم نہ آئے تو کیا کروں
دشمن بھی میرے حال پہ اب آب دیدہ ہے

لالہ مادھو رام جوہر




جو دوست ہیں وہ مانگتے ہیں صلح کی دعا
دشمن یہ چاہتے ہیں کہ آپس میں جنگ ہو

لالہ مادھو رام جوہر




دشمنی لاکھ سہی ختم نہ کیجے رشتہ
دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہئے

enmity however strong, the contact never break
hearts and minds may be apart, the hands must ever shake

ندا فاضلی