EN हिंदी
دوشنانی شیاری | شیح شیری

دوشنانی

21 شیر

میں حیراں ہوں کہ کیوں اس سے ہوئی تھی دوستی اپنی
مجھے کیسے گوارہ ہو گئی تھی دشمنی اپنی

احسان دانش




عمر بھر ملنے نہیں دیتی ہیں اب تو رنجشیں
وقت ہم سے روٹھ جانے کی ادا تک لے گیا

فصیح اکمل




مجھے جو دوستی ہے اس کو دشمنی مجھ سے
نہ اختیار ہے اس کا نہ میرا چارا ہے

غمگین دہلوی




دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے

حبیب جالب




لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تری
ہم تری دوستی سے ڈرتے ہیں

حبیب جالب




ایسے بگڑے کہ پھر جفا بھی نہ کی
دشمنی کا بھی حق ادا نہ ہوا

she was so annoyed she did not even torment me
in doing so denied what was due to enmity

حسرتؔ موہانی




کرے ہے عداوت بھی وہ اس ادا سے
لگے ہے کہ جیسے محبت کرے ہے

کلیم عاجز