EN हिंदी
دھپ شیاری | شیح شیری

دھپ

32 شیر

دشت وفا میں جل کے نہ رہ جائیں اپنے دل
وہ دھوپ ہے کہ رنگ ہیں کالے پڑے ہوئے

ہوش ترمذی




وہ تپش ہے کہ جل اٹھے سائے
دھوپ رکھی تھی سائبان میں کیا

خالدہ عظمی




ذرا یہ دھوپ ڈھل جائے تو ان کا حال پوچھیں گے
یہاں کچھ سائے اپنے آپ کو پیکر بتاتے ہیں

خوشبیر سنگھ شادؔ




کون جانے کہ اڑتی ہوئی دھوپ بھی
کس طرف کون سی منزلوں میں گئی

کشور ناہید




نقاب رخ اٹھایا جا رہا ہے
وہ نکلی دھوپ سایہ جا رہا ہے

from the confines of the veil your face is now being freed
lo sunshine now emerges, the shadows now recede

ماہر القادری




کچھ اب کے دھوپ کا ایسا مزاج بگڑا ہے
درخت بھی تو یہاں سائبان مانگتے ہیں

منظور ہاشمی




علویؔ یہ معجزہ ہے دسمبر کی دھوپ کا
سارے مکان شہر کے دھوئے ہوئے سے ہیں

محمد علوی