EN हिंदी
آ رہا ہے مرے گمان میں کیا | شیح شیری
aa raha hai mere guman mein kya

غزل

آ رہا ہے مرے گمان میں کیا

خالدہ عظمی

;

آ رہا ہے مرے گمان میں کیا
کوئی رہتا تھا اس مکان میں کیا

وہ تپش ہے کہ جل اٹھے سائے
دھوپ رکھی تھی سائبان میں کیا

اک تری دید کی تمنا ہے
اور رکھا ہے اس جہان میں کیا

کیا ہمیشہ ہی ایسا ہوتا ہے
موڑ آتا ہے درمیان میں کیا

کی مرے بعد قتل سے توبہ
آخری تیر تھا کمان میں کیا

گونگی بہری بصارتوں کے لیے
خواب لکھے تھے امتحان میں کیا

کیا سکوں کی تلاش ہے سب کو
ایک ہلچل سی ہے جہان میں کیا

ریت سی اڑ رہی ہے کیوں عظمیٰؔ
لگ گیا گھن کسی چٹان میں کیا