ہر چند جاگتے ہیں پہ سوئے ہوئے سے ہیں
سب اپنے اپنے خوابوں میں کھوئے ہوئے سے ہیں
میں شام کے حصار میں جکڑا ہوا سا ہوں
منظر مرے لہو میں ڈبوئے ہوئے سے ہیں
محسوس ہو رہا ہے یہ پھولوں کو دیکھ کر
جیسے تمام رات کے روئے ہوئے سے ہیں
اک ڈور ہی ہے دن کی مہینوں کی سال کی
اس میں کہیں پہ ہم بھی پروئے ہوئے سے ہیں
علویؔ یہ معجزہ ہے دسمبر کی دھوپ کا
سارے مکان شہر کے دھوئے ہوئے سے ہیں
غزل
ہر چند جاگتے ہیں پہ سوئے ہوئے سے ہیں
محمد علوی