نہ چشم تر بتاتی ہے نہ زخم سر بتاتے ہیں
وہ اک روداد جو سہمے ہوئے یہ گھر بتاتے ہیں
میں اپنے آنسوؤں پر اس لئے قابو نہیں رکھتا
کہ میرے دل کی حالت مجھ سے یہ بہتر بتاتے ہیں
انہیں دل کی صداؤں پر بھلا کیسے یقیں ہوگا
یہ آنکھیں تو وہی سنتی ہیں جو منظر بتاتے ہیں
یقیناً پھر کسی نے جرأت پرواز کی ہوگی
یہاں چاروں طرف بکھرے ہوئے یہ پر بتاتے ہیں
کہاں گم ہو گیا ہے راستے میں وہ مسافر بھی
نہ کچھ رہزن بتاتے ہیں نہ کچھ رہبر بتاتے ہیں
ذرا یہ دھوپ ڈھل جائے تو ان کا حال پوچھیں گے
یہاں کچھ سائے اپنے آپ کو پیکر بتاتے ہیں
تجھے بھی شادؔ اپنی ذات سے باہر نکلنا ہے
صدف کی قید سے نکلے ہوئے گوہر بتاتے ہیں
غزل
نہ چشم تر بتاتی ہے نہ زخم سر بتاتے ہیں
خوشبیر سنگھ شادؔ