EN हिंदी
دھپ شیاری | شیح شیری

دھپ

32 شیر

وہ اور ہوں گے جو کار ہوس پہ زندہ ہیں
میں اس کی دھوپ سے سایہ بدل کے آیا ہوں

اکبر معصوم




کب دھوپ چلی شام ڈھلی کس کو خبر ہے
اک عمر سے میں اپنے ہی سائے میں کھڑا ہوں

اختر ہوشیارپوری




دیوار ان کے گھر کی مری دھوپ لے گئی
یہ بات بھولنے میں زمانہ لگا مجھے

اصغر مہدی ہوش




زاویہ دھوپ نے کچھ ایسا بنایا ہے کہ ہم
سائے کو جسم کی جنبش سے جدا دیکھتے ہیں

عاصمؔ واسطی




یہ دھوپ تو ہر رخ سے پریشاں کرے گی
کیوں ڈھونڈ رہے ہو کسی دیوار کا سایہ

اطہر نفیس




دھوپ بڑھتے ہی جدا ہو جائے گا
سایۂ دیوار بھی دیوار سے

بہرام طارق




پھر یاد بہت آئے گی زلفوں کی گھنی شام
جب دھوپ میں سایہ کوئی سر پر نہ ملے گا

بشیر بدر