بہاروں کی نظر میں پھول اور کانٹے برابر ہیں
محبت کیا کریں گے دوست دشمن دیکھنے والے
کلیم عاجز
بہار آئی گلوں کو ہنسی نہیں آئی
کہیں سے بو تری گفتار کی نہیں آئی
کالی داس گپتا رضا
آئیں گے وقت خزاں چھوڑ دے آئی ہے بہار
لے لے صیاد قسم رکھ دے گلستاں سر پر
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
بال و پر بھی گئے بہار کے ساتھ
اب توقع نہیں رہائی کی
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
ٹک دیکھ لیں چمن کو چلو لالہ زار تک
کیا جانے پھر جئیں نہ جئیں ہم بہار تک
میر حسن
کیا ہنگامۂ گل نے مرا جوش جنوں تازہ
ادھر آئی بہار ایدھر گریباں کا رفو ٹوٹا
میر محمدی بیدار
خزاں رخصت ہوئی پھر آمد فصل بہاری ہے
گریباں خود بخود ہونے لگا ہے دھجیاں میرا
مرزا آسمان جاہ انجم