بہار آئی گلوں کو ہنسی نہیں آئی
کہیں سے بو تری گفتار کی نہیں آئی
کچھ اور وجہ ہے کم ہو گئی ہے لذت جام
ہماری پیاس میں کوئی کمی نہیں آئی
یہ کائنات سب آغوش نیم شب میں ہے
زمانہ ہو گیا آواز ہی نہیں آئی
دل اک درخت زمیں بوس باد و باراں سے
رتیں گزر گئیں کونپل نئی نہیں آئی
نہ جانے کیسی گھڑی سے گزر رہے تھے ہم
کہ جاگتے نہ رہے نیند بھی نہیں آئی
غزل
بہار آئی گلوں کو ہنسی نہیں آئی
کالی داس گپتا رضا