جب بھی دو آنسو نکل کر رہ گئے
درد کے عنواں بدل کر رہ گئے
کتنی فریادیں لبوں پر رک گئیں
کتنے اشک آہوں میں ڈھل کر رہ گئے
رخ بدل جاتا مری تقدیر کا
آپ ہی تیور بدل کر رہ گئے
کھل کے رونے کی تمنا تھی ہمیں
ایک دو آنسو نکل کر رہ گئے
زندگی بھر ساتھ دینا تھا جنہیں
دو قدم ہم راہ چل کر رہ گئے
تیرے انداز تبسمؔ کا فسوں
حادثے پہلو بدل کر رہ گئے
غزل
جب بھی دو آنسو نکل کر رہ گئے
صوفی تبسم