سفر کے بعد بھی ذوق سفر نہ رہ جائے
خیال و خواب میں اب کے بھی گھر نہ رہ جائے
میں سوچتا ہوں بہت زندگی کے بارے میں
یہ زندگی بھی مجھے سوچ کر نہ رہ جائے
بس ایک خوف میں ہوتی ہے ہر سحر میری
نشان خواب کہیں آنکھ پر نہ رہ جائے
یہ بے حسی تو مری ضد تھی میرے اجزا سے
کہ مجھ میں اپنے تعاقب کا ڈر نہ رہ جائے
ہوائے شام ترا رقص ناگزیر سہی
یہ میری خاک ترے جسم پر نہ رہ جائے
اسی کی شکل لیا چاہتی ہے خاک مری
سو شہر جاں میں کوئی کوزہ گر نہ رہ جائے
گزر گیا ہو اگر قافلہ تو دیکھ آؤ
پس غبار کسی کی نظر نہ رہ جائے
میں ایک اور کھڑا ہوں حصار دنیا کے
وہ جس کی ضد میں کھڑا ہوں ادھر نہ رہ جائے
غزل
سفر کے بعد بھی ذوق سفر نہ رہ جائے
ابھیشیک شکلا