عبث ڈھونڈا کئے ہم ناخداؤں کو سفینوں میں
وہ تھے آسودۂ ساحل ملے ساحل نشینوں میں
عبدالرحمان بزمی
چھلک جاتی ہے اشک گرم بن کر میری آنکھوں سے
ٹھہرتی ہی نہیں صہبائے درد ان آبگینوں میں
عبدالرحمان بزمی
تھا کسی گم کردۂ منزل کا نقش بے ثبات
جس کو میر کارواں کا نقش پا سمجھا تھا میں
عبدالرحمان بزمی
اندھیری رات کو میں روز عشق سمجھا تھا
چراغ تو نے جلایا تو دل بجھا میرا
عبدالرحمان احسان دہلوی
آنکھیں مری پھوٹیں تری آنکھوں کے بغیر آہ
گر میں نے کبھی نرگس بیمار کو دیکھا
عبدالرحمان احسان دہلوی
آگ اس دل لگی کو لگ جائے
دل لگی آگ پھر لگانے لگی
عبدالرحمان احسان دہلوی
آہ پیچاں اپنی ایسی ہے کہ جس کے پیچ کو
پیچواں نیچا بھی تیرا دیکھ کر خم کھائے ہے
عبدالرحمان احسان دہلوی