EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

عبث ڈھونڈا کئے ہم ناخداؤں کو سفینوں میں
وہ تھے آسودۂ ساحل ملے ساحل نشینوں میں

عبدالرحمان بزمی




چھلک جاتی ہے اشک گرم بن کر میری آنکھوں سے
ٹھہرتی ہی نہیں صہبائے درد ان آبگینوں میں

عبدالرحمان بزمی




تھا کسی گم کردۂ منزل کا نقش بے ثبات
جس کو میر کارواں کا نقش پا سمجھا تھا میں

عبدالرحمان بزمی




اندھیری رات کو میں روز عشق سمجھا تھا
چراغ تو نے جلایا تو دل بجھا میرا

عبدالرحمان احسان دہلوی




آنکھیں مری پھوٹیں تری آنکھوں کے بغیر آہ
گر میں نے کبھی نرگس بیمار کو دیکھا

عبدالرحمان احسان دہلوی




آگ اس دل لگی کو لگ جائے
دل لگی آگ پھر لگانے لگی

عبدالرحمان احسان دہلوی




آہ پیچاں اپنی ایسی ہے کہ جس کے پیچ کو
پیچواں نیچا بھی تیرا دیکھ کر خم کھائے ہے

عبدالرحمان احسان دہلوی