تجھ کو اغراض جہاں سے ماورا سمجھا تھا میں
پیکر اخلاص تصویر وفا سمجھا تھا میں
جب لیا نام خدا کشتی کنارے لگ گئی
جانے کس کس بو الہوس کو ناخدا سمجھا تھا میں
تھا کسی ظالم کا اپنا مدعائے زندگی
جس کو اپنی زندگی کا مدعا سمجھا تھا میں
تھا کسی گم کردۂ منزل کا نقش بے ثبات
جس کو میر کارواں کا نقش پا سمجھا تھا میں
انتہائے یاس میں اب کیا کہوں؟ کس سے کہوں؟
ابتدائے شوق میں کس کس کو کیا سمجھا تھا میں
آ گیا جب آ گیا ان کو خیال التفات
اپنے شوق دل کو بزمیؔ نارسا سمجھا تھا میں
غزل
تجھ کو اغراض جہاں سے ماورا سمجھا تھا میں
عبدالرحمان بزمی