عبث ڈھونڈا کئے ہم ناخداؤں کو سفینوں میں
وہ تھے آسودۂ ساحل ملے ساحل نشینوں میں
وہ اوروں کے بتوں کو توڑنے والوں کو دیکھو تو
چھپائے پھرتے ہیں اپنے بتوں کو آستینوں میں
ہماری بیکسی اور ناتوانی کا خدا حافظ
کہ تلواریں ہیں پنہاں رہبروں کی آستینوں میں
چھلک جاتی ہے اشک گرم بن کر میری آنکھوں سے
ٹھہرتی ہی نہیں صہبائے درد ان آبگینوں میں
مرے اشعار ہیں آئینۂ سوز دروں بزمیؔ
جھلکتا ہے مرا خون جگر ان آبگینوں میں
غزل
عبث ڈھونڈا کئے ہم ناخداؤں کو سفینوں میں
عبدالرحمان بزمی