بہت خاموش رہ کر جو صدائیں مجھ کو دیتا تھا
بڑے سندر سے جذبوں کی قبائیں مجھ کو دیتا تھا
عاشر وکیل راؤ
بات میں بات اسی کی ہے سنو تم جس کی
یوں تو کہنے کو سبھی منہ میں زباں رکھتے ہیں
اشک رامپوری
اک دن وہ مل گئے تھے سر رہ گزر کہیں
پھر دل نے بیٹھنے نہ دیا عمر بھر کہیں
اشک رامپوری
دل کی بستی میں اجالا ہی اجالا ہوتا
کاش تم نے بھی کسی درد کو پالا ہوتا
اشوک ساحل
اردو کے چند لفظ ہیں جب سے زبان پر
تہذیب مہرباں ہے مرے خاندان پر
اشوک ساحل
تری صورت سے حسیں اور بھی مل جائیں گے
جس میں سیرت بھی تری ہو وہ کہاں سے لاؤں
اشوک ساہنی
زمانے نے لگائیں مجھ پہ لاکھوں بندشیں لیکن
سر محفل مری نظروں نے تم سے گفتگو کر لی
اشوک ساہنی

