EN हिंदी
بہت خاموش رہ کر جو صدائیں مجھ کو دیتا تھا | شیح شیری
bahut KHamosh rah kar jo sadaen mujhko deta tha

غزل

بہت خاموش رہ کر جو صدائیں مجھ کو دیتا تھا

عاشر وکیل راؤ

;

بہت خاموش رہ کر جو صدائیں مجھ کو دیتا تھا
بڑے سندر سے جذبوں کی قبائیں مجھ کو دیتا تھا

کبھی جو درد کی آتش مجھے سلگانے لگتی تھی
وہ اپنے سانس کی مہکی ہوائیں مجھ کو دیتا تھا

وہ اس کی چاہتیں بھی تو زمانے سے انوکھی تھیں
ریاضت خود وہ کرتا تھا جزائیں مجھ کو دیتا تھا

مرے احساس کے صحراؤں میں جو دھوپ بڑھتی تھی
وہ موسم کا خدا بن کر گھٹائیں مجھ کو دیتا تھا

اسے میں اجنبی سمجھا مگر ہر موڑ پر عاشرؔ
وہ اپنے نام کی ساری دعائیں مجھ کو دیتا تھا