EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کھو گئی جا کے نظر یوں رخ روشن کے قریب
جیسے کھو جاتی ہے بیوہ کوئی دلہن کے قریب

اصغر مہدی ہوش




خدا بدل نہ سکا آدمی کو آج بھی ہوشؔ
اور اب تک آدمی نے سیکڑوں خدا بدلے

اصغر مہدی ہوش




کیا ستم کرتے ہیں مٹی کے کھلونے والے
رام کو رکھے ہوئے بیٹھے ہیں راون کے قریب

اصغر مہدی ہوش




میرے ہی پاؤں مرے سب سے بڑے دشمن ہیں
جب بھی اٹھتے ہیں اسی در کی طرف جاتے ہیں

اصغر مہدی ہوش




مٹی میں کتنے پھول پڑے سوکھتے رہے
رنگین پتھروں سے بہلتا رہا ہوں میں

اصغر مہدی ہوش




ساغر نہیں کہ جھوم کے اٹھے اٹھا لیا
یہ زندگی کا بوجھ ہے مل کر اٹھائیے

اصغر مہدی ہوش




ٹوٹ کر روح میں شیشوں کی طرح چبھتے ہیں
پھر بھی ہر آدمی خوابوں کا تمنائی ہے

اصغر مہدی ہوش