EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

زندگی اور زندگی کی یادگار
پردہ اور پردے پہ کچھ پرچھائیاں

اثر لکھنوی




بے وجہ نہیں حسن کی تنویر میں تابش
لو دیتے ہیں خاکستر الفت کے شرارے

اثر رامپوری




عشق میں شکوہ کفر ہے اور ہر التجا حرام
توڑ دے کاسۂ مراد عشق گداگری نہیں

اثر رامپوری




تم چاہو تو دو لفظوں میں طے ہوتے ہیں جھگڑے
کچھ شکوے ہیں بے جا مرے کچھ عذر تمہارے

اثر رامپوری




آہ کیا کیا آرزوئیں نذر حرماں ہو گئیں
روئیے کس کس کو اور کس کس کا ماتم کیجئے

اثر صہبائی




الٰہی کشتئ دل بہہ رہی ہے کس سمندر میں
نکل آتی ہیں موجیں ہم جسے ساحل سمجھتے ہیں

اثر صہبائی




جہاں پہ چھایا سحاب مستی برس رہی ہے شراب مستی
غضب ہے رنگ شباب مستی کہ رند و زاہد بہک رہے ہیں

اثر صہبائی