زندگی اور زندگی کی یادگار
پردہ اور پردے پہ کچھ پرچھائیاں
اثر لکھنوی
بے وجہ نہیں حسن کی تنویر میں تابش
لو دیتے ہیں خاکستر الفت کے شرارے
اثر رامپوری
عشق میں شکوہ کفر ہے اور ہر التجا حرام
توڑ دے کاسۂ مراد عشق گداگری نہیں
اثر رامپوری
تم چاہو تو دو لفظوں میں طے ہوتے ہیں جھگڑے
کچھ شکوے ہیں بے جا مرے کچھ عذر تمہارے
اثر رامپوری
آہ کیا کیا آرزوئیں نذر حرماں ہو گئیں
روئیے کس کس کو اور کس کس کا ماتم کیجئے
اثر صہبائی
الٰہی کشتئ دل بہہ رہی ہے کس سمندر میں
نکل آتی ہیں موجیں ہم جسے ساحل سمجھتے ہیں
اثر صہبائی
جہاں پہ چھایا سحاب مستی برس رہی ہے شراب مستی
غضب ہے رنگ شباب مستی کہ رند و زاہد بہک رہے ہیں
اثر صہبائی

