EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

آپ کا خط نہیں ملا مجھ کو
دولت دو جہاں ملی مجھ کو

اثر لکھنوی




بہانہ مل نہ جائے بجلیوں کو ٹوٹ پڑنے کا
کلیجہ کانپتا ہے آشیاں کو آشیاں کہتے

اثر لکھنوی




بھولنے والے کو شاید یاد وعدہ آ گیا
مجھ کو دیکھا مسکرایا خود بہ خود شرما گیا

اثر لکھنوی




ادھر سے آج وہ گزرے تو منہ پھیرے ہوئے گزرے
اب ان سے بھی ہماری بے کسی دیکھی نہیں جاتی

اثر لکھنوی




اک بات بھلا پوچھیں کس طرح مناؤ گے
جیسے کوئی روٹھا ہے اور تم کو منانا ہے

اثر لکھنوی




عشق سے لوگ منع کرتے ہیں
جیسے کچھ اختیار ہے اپنا

اثر لکھنوی




جو آپ کہیں اس میں یہ پہلو ہے وہ پہلو
اور ہم جو کہیں بات میں وہ بات نہیں ہے

اثر لکھنوی