کیوں کسی رہرو سے پوچھوں اپنی منزل کا پتا
موج دریا خود لگا لیتی ہے ساحل کا پتا
ہے نشان لیلیٰ مقصود محمل کا پتا
دل ربا ہاتھ آ گیا پایا جہاں دل کا پتا
راہ الفت میں سمجھ لو دل کو گونگا رہ نما
ساتھ ہے اور دے نہیں سکتا ہے منزل کا پتا
کہتا ہے ناصح کہ واپس جاؤ اور میں سادہ لوح
پوچھتا ہوں خود اسی سے کوئے قاتل کا پتا
راہبر رہزن نہ بن جائے کہیں اس سوچ میں
چپ کھڑا ہوں بھول کر رستے میں منزل کا پتا
آئی اک آواز تیر اور نکلی دل سے اف
پھر نہ قاتل کا نشاں پایا نہ بسمل کا پتا
بانکی چتون والے محشر میں ہزاروں ہیں تو ہوں
مل ہی جائے گا کسی صورت سے قاتل کا پتا
اس جگہ بسمل نے دم توڑا جہاں کی خاک تھی
یوں لگاتے ہیں لگانے والے منزل کا پتا
پوچھنے والے نے یہ پوچھا کہ کیوں بیدل ہو کیوں
اور مجھ کو مل گیا کھوئے ہوئے دل کا پتا
موجیں ٹکرائی ہوئیں دشمن بھی نکلیں دوست بھی
پیچھے کشتی کو ڈھکیلا دے کے ساحل کا پتا
رہ گیا ہے ٹوٹ کر زخم جگر میں تیر ناز
اب لگا لینا نہیں دشوار قاتل کا پتا
سوختہ پروانے کشتہ شمع فرش داغ دار
دے رہے ہیں رات کی گرمئ محفل کا پتا
میں وفا کیش آرزوؔ اور وہ وفا نا آشنا
پڑ گیا مشکل میں پا کر اپنی مشکل کا پتا
غزل
کیوں کسی رہرو سے پوچھوں اپنی منزل کا پتا
آرزو لکھنوی