کہتے ہو کہ ہم درد کسی کا نہیں سنتے
میں نے تو رقیبوں سے سنا اور ہی کچھ ہے
امیر مینائی
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
امیر مینائی
خدا نے نیک صورت دی تو سیکھو نیک باتیں بھی
برے ہوتے ہو اچھے ہو کے یہ کیا بد زبانی ہے
امیر مینائی
خوشامد اے دل بے تاب اس تصویر کی کب تک
یہ بولا چاہتی ہے پر نہ بولے گی نہ بولی ہے
امیر مینائی
خشک سیروں تن شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعۂ تر کی صورت
امیر مینائی
خون ناحق کہیں چھپتا ہے چھپائے سے امیرؔ
کیوں مری لاش پہ بیٹھے ہیں وہ دامن ڈالے
امیر مینائی
خواب میں آنکھیں جو تلووں سے ملیں
بولے اف اف پاؤں میرا چھل گیا
امیر مینائی