EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہو گیا بند در میکدہ کیا قہر ہوا
شوق پا بوس حسیناں جو تجھے تھا اے دل

امیر مینائی




ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

امیر مینائی




ان شوخ حسینوں پہ جو مائل نہیں ہوتا
کچھ اور بلا ہوتی ہے وہ دل نہیں ہوتا

امیر مینائی




جس غنچہ لب کو چھیڑ دیا خندہ زن ہوا
جس گل پہ ہم نے رنگ جمایا چمن ہوا

امیر مینائی




جو چاہئے سو مانگیے اللہ سے امیرؔ
اس در پہ آبرو نہیں جاتی سوال سے

امیر مینائی




کعبۂ رخ کی طرف پڑھنی ہے آنکھوں سے نماز
چاہئے گرد نظر بہر تیمم مجھ کو

امیر مینائی




کباب سیخ ہیں ہم کروٹیں ہر سو بدلتے ہیں
جل اٹھتا ہے جو یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں

امیر مینائی